اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریلوے کی مکمل اوورہالنگ اور ملازمین کی چھانٹیاں کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے سے متعلق آپریشن اور ملازمین کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے تقریر نہ کریں سب پتہ ہے، ریلوے میں کیا ہو رہا ہے، انجن چل رہے ہیں نہ ڈبے، نا اہل افراد بھرے پڑے ہیں، محکمہ مسلسل خسارے میں ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ریلوے ملازمین کی سروس مستقلی کے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ ٹی ایل اے میں 2 ہزار 712 اور ریلوے میں کل 76 ہزار ملازمین ہیں، 142 مسافراور 120 گڈز ٹرینیں چل رہی ہیں، اس وقت کورونا کی وجہ سے 43 مسافر ٹرینیں فعال ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 76 ہزار ملازمین رکھے ہوئے ہیں، ریلوے کا نظام چلانے کے لیے تو 10 ہزار ملازمین کافی ہیں، آپ کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہے پھر یہ ملازمین کیا کر رہے ہیںں ؟۔
چیف جسٹس نے سیکرٹری ریلوے سے کہا کہ آپ کے دورمیں کتنے حادثے ہوئے، آپ سے ریلوے نہیں چل رہی، چھوڑ دیں، آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں، ریلوے بدترین حال کو پہنچ چکی، 6 ماہ پہلے والے حادثے کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی، ریلوے میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے، ملازمین خود اپنے محکمے کے ساتھ وفادار نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں، میڈیا پر آرہا ہے کہ وزیراعظم ریلوے میں اصلاحات لا رہے ہیں، ریلوے کے کمپیوٹرز پر مٹی پڑی ہوئی ہے۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔