کالم/مضامین

سندھ کےصحرائے علاقےتھرپارکر پر تفصیلی رپورٹ

*سندھ کےصحرائے علاقےتھرپارکر پر تفصیلی رپورٹ*

نیوز ڈیسک ود جاوید صدیقی یو ٹیوب چینل کی ٹیم نے جاوید صدیقی کو تھرپارکر کی صورتحال پے ایک تفصیلی رپورٹ پر کالم تحریر کرنے کا مشورہ دیا آج کا کالم بھی اسی مشورے پر محیط ہے۔۔۔۔معزز قارئین!! ایک وقت تھا جب سندھ کا طویل ترین صحرائے علاقہ تھرپارکرکہلاتا تھا آبادی کے بڑھتے رجحان کے بعد اسے دو حصوں میں منقسیم کردیا گیا، ایک تھر دوسرا پارکر۔ تھر کا صدر مقام مٹھی کو بنادیا گیا جبکہ پارکر میں میرپورخاص کو بنایا اب میرپورخاص سندھ کا تیسرا بڑا ڈویژن ہے لیکن بنیادی ضرورتوں میں سب سے پیچھے اسکی سب سے بڑی وجہ سیاسی چپکلیش اور عداوت بتائی جاتی ہے، سندھ بھر میں سب سے زیادہ اجناس پیدا کرنے والا حصہ یہی ہے آم، گنا، کیلا، مرچیں، کینو، لیموں، فالسے، جامن، پپیتا، ماٹا اور دیگر پھل و سبزیاں جنوبی اشیا کی منڈیوں میں سر فہرست مقام رکھتی ہیں اور ان اجناس سے اربوں ڈالر زرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے، یہاں فروٹ فارم میں زرعی لیباٹری کے ذریعے کئی اجناس کا کامیاب تجربات کئے سندھڑی آم بھی اسی لیباٹری کا کامیاب تجربہ تھا اس لیباٹری نے جام جیلی اچار ماملیٹ اور بیشمار اشیائیں متعارف بھی کرائیں ہیں لیکن سندھ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے خستہ حالی اور شدید مالی بحران کا شکار رہی ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ یہاں سے کمایا جاسکتا ہے مگر افسوس سندھ حکومت کی ناہلی کےباعث ناپید ناکام پروجیکٹ پلاننگ کے سبب اربوں روپیہ کرپشن کی نزر ہوجاتا ہے۔ میرپورخاص ڈویژن کا ریلوے جنگشن ہمیشہ فوائدمیں رہاہےپاکستان کا یہ واحد لوپ لائن کا جنگشن ہےجس نے ہمیشہ پاکستان ریلوے کوکماکردیا مگرکبھی بھی اس پرنہ توتوجہ دی گئی اورنہ بہتری کی جانب اقدامات اٹھائے گئے ہرایک نےاپنے اقتدار میں آکر صرف دعوے ہی کئے البتہ آصف علی زرداری نےاپنےدوراقتدار میں حیدرآباد تا میرپورخاص تک میٹروے کورین کمپنی کے ذریعے بنوائی۔۔۔ معزز قارئین!!تھرکی کل آبادی اٹھارہ لاکھ ہے جن میں مٹھی اور اسلام کوٹ سےمتصل علاقوں کے سات سے آٹھ لاکھ لوگوں کو دریائے سندھ کا میٹھا پانی پائپ لائن کے ذریعے دیا جارہا ہے۔
واضح رہیکہ تھرپارکر کےضلعی ہیڈکوارٹر شہر مٹھی کی متعدد کالونیوں کے رہائشی گذشتہ کئی دنوں سے پانی کی فراہمی سے محروم ہیں تھر کے ایک رہائشی ادیب اور شاعر خلیل کمبھر کا کہنا ہے کہ نگرپارکر صحرائے تھر میں وہ علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ پانی کی قلت رہتی ہے، خاص طور پر جون اور جولائی کے مہنیوں میں تو یہ قلت شدت اختیار کرجاتی ہے،اس لیےیہاں کےلوگ اپنی مدد آپ کے تحت کنویں کھودتے ہیں اورکھدائی کے دوران اموات کےواقعات بھی رونماہوتےرہتے ہیں اس دوران ابتک کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےہیں قدرتی معدنیات اورلائیواسٹاک کی دولت سے مالا مال اس خطے کے لوگوں کو حکومت پینے کا پانی بھی مہیا نہ کرسکی، تھر کے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تھر کے پانی کے مسئلے کا واحد اور دیرینہ حل یہ ہے کہ تھر کو پانی کی ایک نہر دی جائےجیسے بھارت کے صحرا راجستھان میں وہاں کی حکومت نے اندرا گاندھی کینال بناکر ہمیشہ کے لیے پانی کا مسئلہ حل کردیا۔آخر تھر کو پانی کی نہر کیوں نہیں دیجاتی؟ اس بابت رکن سندھ اسمبلی نےکہا کہ کس جگہ سے نہر کھود کر تھر کو کینال دیا جائے؟ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کے گُدو بیراج سے نگرپارکر تک ساڑھے چارسوکلومیٹر کا فاصلہ ہے اتنی بڑی نہر کیلئے رقم کہاں سے آئے گی؟
جب عمر کوٹ کےقریب پاک فوج کی چھاؤنی کو پانی چاہیے تھا تو نارا کینال سے تھرکینال نامی ایک نہر کھودی گئی، اسی طرح جب تھر کول پروجیکٹ میں کوئلے کی کھدائی کے لیے پانی کی ضرورت تھی تو چند ماہ میں پائپ کے ذریعے پانی فراہم کردیا گیا۔جب بھی تھر میں پانی کی قلت اور قحط سالی کے باعث بچوں کی اموات ہوتی ہیں تو لوگ پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں، اس تنقید کے بعد سندھ حکومت نے تھر میں کئی منصوبے بنائے جس پر صوبائی حکومت کو ناز بھی ہے اور اکثر اشتہاری مہم میں ان منصوبوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، مگر بعد میں یہ منصوبے ناکام ثابت ہوئے۔ان میں سب سے بڑا منصوبہ جس کا ذکر بلاول بھٹو زرداری ہمیشہ فخرسےکرتے ہیں ایشیا کے سب سے بڑے آراو پلانٹ کا منصوبہ تھاجسکے تحت تھرمیں ساڑھےسات سو آراو پلانٹس لگانے تھے جس پرآٹھ ارب روپےسے زائد کی رقم لگائی گی مگر اس وقت تھر کے ان ساڑھے سات آراو پلانٹس میں سےاکثریت مکمل طورپربند ہیں۔ منتخب رکن سندھ اسمبلی نے اعتراف کیا کہ آر او پلانٹس لگانا ایک غلط منصوبہ تھا جو تھر میں پانی کی قلت کو ختم نہیں کر سکتا۔اسکے علاوہ بھی نگرپارکر میں دس ارب سے زائد رقم خرچ کرکے کئی چھوٹے ڈیم بنائے گئے اور دعویٰ کیاگیا کہ ان ڈیموں کی تعمیر کے بعد علاقے میں پانی کی قلت ختم ہوجائیگی مگر دس سالوں میں کئی باربارش ہونے کے باوجود غلط منصوبہ بندی سے بنائے گئے ان ڈیموں میں سے ایک بھی مکمل طور پرنہیں بھرسکا۔جنوب مشرقی سندھ میں بھارتی سرحد سے متصل بیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا صحرائے تھر گذشتہ کئی سالوں سے شدید قحط سالی پانی کی قلت نولود بچوں کی اموات خودکشیوں اور یورپین خشک سالی سے پریشان لوگوں کی بیرانی علاقوں کیطرف نقل مقانی سے متعلق خبروں کے باعث میڈیا میں موضوع گفتگو رہا ہےصحرائےتھر معدنیات سے مالا مال ہے ایک اندازے کے مطابق یہاں ایک سو سے زائد نمک کی کانیں ہیں نگرپارکر کےنزدیک ایک خاص قسم کی مٹی کاولن جسے مقامی زبان میں چینی مٹی کہاجاتا ہے کے بڑے ذخائرہیں پاکستان میں یہ مٹی صرف خیر پختونخوا کے ضلع سوات اور سندھ کے صحرائے تھر میں پائی جاتی ہے جس کے ایک کلوگرام کی قیمت تین ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔اسکے علاوہ نگرپارکر میں وسیع پیمانے پر پھیلے کارونجھر پہاڑی سلسلے میں رنگ برنگے گرینائٹ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔تحقیق کے مطابق کارونجھر میں سرمئی گرینائٹ کے گیارہ ہزار ٹن، گلابی گرینائٹ کے چار ہزار ٹن اور دو سو چالیس ٹن ایڈا ملائیٹ گرینائیٹ کےذخائر موجود ہیں۔گرینائیٹ کے ان ذخائر کو نکالنے کیلئے دیگرکئی کمپنیوں کےعلاوہ پاکستانی فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن یعنی ایف ڈبلیو او کو بھی ٹھیکہ دیا ہے۔صحرائے تھر میں ایک سوپچہتر ارب ٹن کوئلے کے ذخائر بھی موجود ہیں جنہیں چودہ بلاکس میں بانٹا گیا ہے جس میں صرف ایک بلاک، بلاک نمبرٹو میں تین اعشاریہ ٹن کوئلہ سالانہ نکالنے کے لئے سواارب امریکی ڈالر کی لاگت سے سندھ اینگرو کول ماننگ کمپنی کام کررہی ہے۔
اسکے علاوہ صوبے سندھ کےکل مویشیوں کا ساٹھ فیصد سے زائد تعداد صرف صحرائے تھر میں ہے، محکمہ لائیو اسٹاک سندھ کے مطابق صحرائے تھر میں گائے، اونٹ، بھیڑوں اور بکریوں سمیت ساٹھ لاکھ کی آبادی ہے معزز قارئین!! یہ سب تحقیق سامنے آنے کے بعد ہماری ٹیم نیوز ڈیسک ود جاوید صدیقی نے اس بات پر بڑی حیرت و تعجب اور تشویش لاحق ہوئی کہ چالیس سال برسراقتدار رہنے کے باوجود روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والی عوامی جمہوری پارٹی پی پی پی نے کچھ نہ دیا بلکہ مفلسی غربت افلاس اور اموات کی وادیاں بکھیر دیں یہ خطہ سرزمین سندھ کا بہترین خطہ ہے جہاں سے حکومتی توجہ کےبعد اربوں کھربوں زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے دیکھتے ہیں آنے والا وقت اس جماعت کو قبولتا ہے کہ نہیں کیونکہ سندھ بھر کے محققین دانشور مفکر مورخین ان کی منفی کارکردگی پر انگلیاں اٹھارہے ہیں اور عوام کے اندر نفرت اور غصہ کا عندیہ بھی دے

*تاریخ:بروزپیر، 15جون 2020*

*ای میل:journalist.js@hotmail.co

*ٹائٹل:بیدارہونےتک*
*عنوان:آغاز غزوہ ہند

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You