رواں سال 70 لاکھ افراد بھوک سے مرچکے، دل دہلا دینے والی رپورٹ
نیویارک: ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلے نے انتہائی تلخ اور دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سال اب تک 70 لاکھ افراد بھوک سے مر چکے ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے یہ تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے اُسے آئندہ چھ ماہ میں خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لئے 6.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
گزشتہ ہفتے پروگرام کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ یہ انعام اُسے تنازعات اور جنگ کو ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے سے روکنے پر دیا گیا ہے۔
پروگرام کا کہنا ہے کہ اسے اپنی امدادی سرگرمیوں کھے لیے اب تک 1.6ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلے نے یو این فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ایک کانفرنس میں کہا کہ قحط اور خشک سالی سے بچنے کیلئے اُسے کہیں زیادہ رقم درکار ہے۔
بیزلے کا کہنا تھا کہ اس سال اب تک 70 لاکھ افراد بھوک سے مر چکے ہیں، اور کورونا وائرس کی وجہ سے یہ تعداد دگنی ہو سکتی ہے۔ روم میں قائم ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً 88 ملکوں میں 9 کروڑ 70 لاکھ افراد کی مدد کر رہا ہے اور دنیا میں ہر 9 میں سے 1 فرد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔
دنیا میں بھوک کی شرح میں کئی عشروں تک کمی دیکھنے میں آئی، تاہم 2016ء سے تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بیزلے کا کہنا تھا کہ اگر آج دنیا میں دولت کے تناسب کے حوالے سے سوچا جائے تو پھر کسی بچے کو بھوک سے مرنا نہیں چاہیے۔ پروگرام کا کہنا ہے کہ اس نے طبی ساز وسامان اور ادویات کے مال بردار جہاز 120 ملکوں میں بھیجے ہیں اور ایسے مقامات جہاں فضائی سفر ممکن نہیں تھا، وہاں امدادی کارکنوں کو بحری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام دنیا میں انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے جو کہ صرف عطیات کے سہارے چل رہا ہے۔ یہ دنیا بھر میں ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ بچوں کو سکول میں کھانا فراہم کرتا ہے اور 2019ء میں اس نے 42 لاکھ ٹن خوراک ضرورت مند ممالک کو فراہم کی تھی۔
ادھر دنیا میں غربت کے خاتمہ کے لئے سرگرم عمل 20 خیراتی تنظیموں کی کنفیڈریشن آکسفیم کا کہنا ہے کہ انسانیت کو درپیش غذائی عدم تحفظ کے مسئلہ پر عالمی ردعمل خطرناک حد تک ناکافی ہے۔
یہ بات آکسفیم نے گزشتہ روز اپنی رپورٹ میں کہی۔ “بعد میں بہت دیر ہو جائے گی” کے زیرِعنوان یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو نوبل امن انعام سے نوازے جانے کے کچھ ہی دن بعد شائع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کووڈ-19 کے باعث دنیا میں غذائی بحران عالمی برادری کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ فنڈنگ میں سست روی کے باعث انسانیت کو فوری مدد فراہم کرنے والے اداروں کو کام میں رکاوٹ آ رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان، صومالیہ، برکینا فاسو، جمہوریہ کانگو، نائیجیریا، جنوبی سوڈان اور یمن میں 55 لاکھ افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔
دوسری جانب رواں سال مارچ میں اقوام متحدہ کی 10.3 بلین ڈالر کی انسانی ہمدردی کی اپیل میں ان سات میں سے پانچ ممالک نے حصہ نہیں ڈالا جبکہ ڈونرز نے صرف 28 فیصدرقم دینے کاوعدہ کیا ۔آکسفیم نے مزید کہا کہ غذائی تحفظ اور خوراک کے شعبوں کو فنڈنگ کے حوالے سے بدترین صورتحال کا سامنا ہے جبکہ جن دیگر شعبوں میں مستقل بنیادوں پر مالی اعانت نہیں ہو رہی اُن میں صنفی تشدد ، عدم تحفظ ، حفظانِ صحت ،صفائی اور پانی کے مسائل شامل ہیں ۔آکسفیم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبامزید لاکھوں افراد کو بھوک میں مبتلا کر رہی ہے۔