جھلم پولیس میں ایماندار اور فرض شناس افسران کی کمی نہیں ھے لیکن جو سالانہ کارکردگی رپورٹ جھلم پولیس نے جاری کی ھے
وہ معمول کی کاروائی ھے۔
اصل حقائق اس کے برعکس ھیں۔ اصل حقائق یہ ھیں کہ۔ 2019 کی نسبت 2020 میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ھوا ھے۔
اگر 2019 میں قتل،اغواء ،اور ڈکیتی کے 50سنگین واقعات رونما ھوۓ ھیں تو 2020 میں 100 ھوۓ ھیں۔نئے ٹرینی سب انسپکٹرز کو ایس ایچ او کا عہدہ دینے سے انصاف کا بیڑہ غرق ھو گیا ھے۔
میری ذاتی راۓ یہ ھے کہ سپاھی سے ترقی پاکر سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچنے والا افسر ایک مکمل انسان ھوتا ھے اور ٹرینی ڈائریکٹ سب انسپکٹر بھرتی ھونے والے نوجوان اپنی پھوں پھاں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ھاں چاپلوسی اور حرام خوری کی نیت سے بھرتی ھونے والوں کو حرام کمانے اور حرام کھانے کے تمام ھنر بہت جلد اور آسانی سے آ جاتے ھیں۔
جھلم پولیس اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ میں یہ بھی بتاۓ کہ کتنے سائلین سے تھانوں میں رشوت لی گئی۔کتنے سائلین کو مایوس واپس لوٹایا گیا۔ کتنے سائلین کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئیے گئے؟
کتنے سائلین کو کھلی کچہریوں میں بار بار ذلیل کرنے کے بعد بھی انصاف مہیا نہیں کیا گیا؟
چاۓ اور سموسے کھا کر صحافی نے وھی لکھنا ھے جو اس کی اوقات ھوتی ھے۔
لعنت ھے چاپلوسی کی صحافت پر۔
پنجاب پولیس کے ایماندار اھلکاران و افسران کو فیصل کیانی کا سلام۔
جھلم۔رپورٹ راجہ فیصل کیانی بی بی سی اردو بیورو چیف پنجاب