باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا ، وہ بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا زارا
باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا ، وہ بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا زارا کہاں ہے ؟ فون بند ہے اس کا ،
جبکہ زارا کا دو سال کا بیٹا گھر میں موجود تھا ، ساس اور نندوں نے بتایا دو دن پہلے رات کو کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ، موبائل بھی ساتھ لے گئی ۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ، خاموشی سے تلاش کررہے ہیں ۔۔۔
باپ کو یقین نہ آیا ، چار سال پہلے اسنے بہت چاؤ سے اس کے خالہ زاد قدیر سے کی شادی کی تھی اور وہ دونوں بہت خوش تھے ، اس نے تلاش گمشدگی کے لیے پولیس کی مدد لی ، پولیس نے سسرالیوں کے بیان لیے ، ہر ایک کے بیان میں تضاد تھا ، چناچہ زارا کی ساس اور نندوں کو شامل تفتیش کیا گیا جس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ زارا بھاگی نہیں بلکہ 11 نومبر کی رات انہوں اس کو مار کر پھینک دیا تھا۔ اور شوہر کو بھی یہی بتایا کہ وہ کسی سے رابطے میں تھی۔ زارا سات ماہ کی حاملہ تھی ، اس کے ساتھ ننھی جان بھی ماری گئی ۔
جھگڑا کیا تھا؟ وہی ساس بہو کی ازلی چپقلش اور نند بھابی کا بیر ۔۔۔ زارا کی پانچ نندیں تھیں اور قدیر ان کا اکلوتا بھائی ۔۔ اور انہوں نے خود زارا کا رشتہ مانگا اور اپنے ہاتھوں سے رخصت کرکے گھر لائیں ۔ جھگڑا پیسے کا تھا ، ان کا خیال تھا ان کا بیٹا سارا خرچ بہو کے ہاتھ رکھتا ہے جبکہ اسے سب کچھ ماں بہنوں کو دینا چاہیے ، وہ خود زارا کو دیں ۔ انہی جھگڑوں سے تنگ آ کر قدیر اسے اٹلی بھی لے گیا اور کچھ ماہ پہلے سسرال چھوڑ گیا ۔ اس بار ساس اور نندوں نے سوچا کہ زارا کو واپس ہی نہ جانے دیا جائے ۔۔ اور قصہ تمام کرکے الزام لگا دیں گے کہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ۔ لاہور سے کسی رشتے دار کو بلایا ، فجر سے کچھ دیر پہلے سوئی ہوئی زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کی اور موت کے حوالے کردیا ۔۔۔ اب مسئلہ لاش کا تھا کہ وہ کہاں کریں ۔۔ اور شناخت کیسے چھپائیں تو سر کو دھڑ سے الگ کرکے چولہے پر جلایا گیا تاکہ نین نقش مسخ ہوجائیں ، پھر جسم کاٹ کر دو الگ الگ بوریوں میں ڈالا ، ایک بوری نہر میں اور ایک دور جھاڑیوں میں پھینک دی ۔ پولیس نے ان کی نشان دہی پر مختلف جگہوں سے جسم کی باقیات برآمد کر لیں ۔
لوگ کہتے ہیں رشتہ اپنوں میں کریں ۔۔ اپنا مارے گا بھی تو چھاؤں میں ڈالے گا۔۔ یہاں تو چھاؤں میں بھی نہیں ڈالا گیا ۔