کالم/مضامین

بااختیار

تحریر: کاشف شمیم صدیقیآج پاکستان میں ” قومی یومِ خواتین” منایا جا رہا ہے، یقینا یومِ خواتین ایک اچھی کاوش ہے کہ آج کے دن بالخصوص عورتوں کے حقوق سے متعلق معاملات کو زیرِبحث لایا جاتا ہے، زندگی کے مختلف حصوں اور پیشہ وارانہ طور پر مختلف شعبہ جات میں خواتین کے ادا کیے جانے والے مثبت کردار کو سراہا جاتا ہے، اٗن کی اعتما د سازی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور ایسی حکمتِ عملی اور فیصلوں کو عمل میں لائے جانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے کہ جس کے زریعے نہ صرف خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر اور ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے بلکہ انہیں ان کے تمام تر حقوق بھی مہیا ہوں اور وہ با اختیار بھی بن سکیں۔ہمارے یہاں جب خواتین کے بااختیارہونے کی بات کی جاتی ہے توبسا اوقات سننے میں یہ بھی آجاتا ہے کہ عورتوں کو اسقدر با اختیار ہو جانا چاہیے۔ ۔ ۔ اسقدر ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ اسقدر کہ وہ اپنے شوہروں کے خلاف "ازدواجی عصمت دری”کے مقدمات درج کروا سکیں اور پھر ایسے معاملات عدالتوں تک بھی پہنچ جائیں۔ کھ بشانہ شانہ کے مردوں کو عورتوں کہ ہے آتا بھی یہ میں سننے پھرنہیں پیچھے یا کم طور کسی سے مردوں وہ ہے ضرورت کی ہونے ڑےنہو اختیار انہیں ،چاہئے ہونا اختیاربا میں معاملے ہر کے زندگی انہیں،رھ چاہیں رہنا میں حُلیے جس یں،پہن لباس چاہے جیسا وہ کہچاہئے اچاہ کرنا احتجاج بھی کا قسم جس بیٹھیں، اُٹھیں مرضی جیسے یں،ہ ۔ ۔ ۔ لگائیں نعرے بھی کے قسم سج لکھیں، جو بولیں، جو کریں، یںیافت ترقی اور جدید یہی ،چاہئے ہونی حاصل انہیں آزادی کی قسم رہو کامیاب ہی ہوئے کرتے پورا کو تقاضوں ان اور ہیں تقاضے کے دور ہص کی رہنے پیرا عمل پر طریقوں طور دقیانوسی وگرنہ ہے سکتا جا اب دینا سے طرح اس اور ہے احتمال کا جانے رہ پیچھے بہت میں ورتف کی حاملمعاشروں کے خیالات اور سوچ ترین جدید موجود میں ھر معاشروں اُن ہی نہ اور ،گا رہے نہیں ممکن بھی ہونا شامل میں ہرست ایڈووکسی کی امپاورمنٹ کی خواتین جو گا جاسکے ہوا پلٓا ہم کے اور تعریف کی "بااختیاری” جو وہ پھر یا ،رکھتے نہیں ثانی اپنا میں ہیں۔ رکھتے کیے شامل بھی کو”پرستی جنس ہم” میں وضاحتتیسری اور سب سے اہم بات، ہمارے لیے تو یہ ہی ہونی چاہیے کہ ہم سب سے پہلے تو(بحیثیتِ مجموعی) خواتین کی خودمختاری کے حق کو تسلیم کریں، یہ دعا بھی کی جائے کہعورتوں کو دیگر تمام حقوق بھی حاصل ہوجائیں اور ہر قسم کے تشدد اور ظلم و جبر سے انہیں چھٹکارا نصیب ہو۔ دعا یہ بھی ضروری ہوگی کہ خواتین کو حاصل ہونے والی خودمختاری ہمارے معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اقدار اور روایات، اور سب سے بڑھ کر مذہبی احکامات سے متصادم نہ ہو ۔ خواتین پڑھیں لکھیں، پیشہ وارانہ میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں، صحت مندانہ اسپورٹس ایکٹیوٹیز اختیار کریں، گھومیں پھریں، کھائیں پیئں، اپنے خلاف ہونے والی ناانصافیوں پر آواز بھی بلند کرئیں، ان تمام معاملات میں ہمارے یہاں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک دیکھنے میں آئی ہے، نہ ہی آ سکتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کےدقیانوسی خیالات راہ میں حائل ہورہے ہیں، بھئی دیکھیں نا کہ آج کل تو خواتین اسکوٹیز بھی بہت بااعتماد طریقے سے چلا رہی ہیں جو وومین امپاورمنٹ کے حق میں ایک اچھی مثال بن کر سامنے آئی ہے ۔ ۔ ۔لیکن بات پھر وہیں آکر ختم ہوتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی، یعنی”حدود اور قیود کی پاسداری ہر حال میں شرط رہے گی”۔ وہ خواتین جو واقعی حقوق کی عدم فراہمی اور ظلم وستم کا شکار ہیں ایسی خواتین کی حقیقی معنوں میں کس طرح سے مدد کی جاسکتی ہے یہ دیکھا جانا ضروری ہے، نمائشی، غیر سنجیدہ اور منفی اقدامات خواتین کو امپاور نہیں بلکہ کمزور بنا سکتے ہیں، عام طور پر خواتین کے بے اختیاری کا ذمے دارمردوں کو ٹھہرا دیا جاتا ہے، اور یقینا ایسا ہوتا بھی ہوگا، لیکن کیا یہ دیکھا جانا بھی ضروری ہے کی خود خواتین اس سلسلے میں کتنی ذمہ دار ہیں؟بہرحال، بحث طویل ہے، لیکن تحریر کے اختتام پر یہ کہنا ضروری ہوگا کہ عورتوں کو بااختیار بنانے میں معاشرے میں موجود ہر اکائی کو اپنا ادا نہ کیا جانے والا مثبٹ کردار سمجھنا اور نبھانا ہوگا چاہے وہ ظالم اور جابر مرد ہوں، اقتداراور فیصلہ سازی کی نشستوں پر براجمان غافل، لاپروا شخصیات ہوں، معاشرے میں منفی رجحانات کو پروان چڑھاتے عناصر ہوں یا پھر حدود اور قیود سے آزاد خواتین۔

Mehr Asif

Chief Editor Contact : +92 300 5441090

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

I am Watching You