انسانی دماغ کی صحیح پروگرامنگ کریں تو ہر کامیابی ھمارے قدموں پر سجدہ ریز ہوسکتی ہے
انسانی دماغ کی صحیح پروگرامنگ کریں تو ہر کامیابی ھمارے قدموں پر سجدہ ریز ہوسکتی ہے
. انسانی دماغ ، ہمارے طابع بالکل بھی نہیں ہے .ہاں کچھ فیصد ، ھم اسکو استمال کر سکتے ہیں .ابھی تک کے سائنسی تجربات بیان کرتے ہیں کہ عام آدمی دو سے تین فیصد ہی دماغ استمال کرتا ہے . ذہین و فطین انسان بھی اسکو ، دس فیصد ہی استمال کرپاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،
کچھ لازوال انسان ، اسکے استمال میں پندرہ فیصد تک بھی چلے جاتے ہیں اور یہ تمام کے تمام یا تو فلاسفرز ہیں یا عملی سائنسدان . اب موضوع بحث کی طرف آتے ہیں ، ھم اپنی زندگی کے بہت سے کام لاشعوری انداز سے کرتے ہیں اور قطعی سوچ سمجھ کر نہیں کرتے .مثلنا گھر واپسی پر راستہ دیکھنا ، گھر یا دفتر کے عام کام ، یا چہروں کی پہچان ،،،،،،،،،،،،، کہ یہ سب آٹومیٹکلی ہورہا ہوتا ہے ،
اب اگر ھم اپنے دماغ کی پروگرامنگ ، اعلی ترین کامیابی کی طرف لگا دیں تو یہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ،،،،،،،،،،،، ھمیں درست راہ پر لے جائے گا اور عظیم ترین کامیابیوں کو ہمارے در کی کنیز بنا دے گا ،،،،،،،،،،،،،،، درست پروگرامنگ کے لئے ، انسانی دماغ کو سو فیصد سچائی کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے .ھم کسی اور کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر خود کو نہیں ،،،،،،،،،،،،،، بس سوچ لیں کہ آپ ہر حالت میں مثبت انسان ہیں اور ترقی و کامیابی کے سچے حقدار ،،،،،،،،، اگر آپ سچ میں خود کو تبدیل کر سکیں اور واقعی سو فیصدی مثبت انداز زندگی کے مالک بن جائیں تو ، دماغ کو جس طرف کی راہ دکھائیں گے ،،،،،،،،،،،،،،،،، یہ وہاں پر ہی لے جائے گا ،
خود کو جو سمجھ لیں اور دل و جان سے مان لیں ، تو وہی آپ بن جاتے ہیں . ہاں جھوٹے اور گھٹیا آدمی کو خود بھی پتا ہوتا ہے کہ وہ کیسا ہے ، تو ناکامی بھی خود ہی ، خود سے حاصل کر لیتا ہے ،،،،،،،،،،،،،،، یہی جنت اور دوزخ ہے کے ھم اپنے ہی ہاتھوں سے لٹ جاتے ہیں اور اپنے ہی صالح اعمال سے ، مصلح بھی بن جاتے ہیں ،،،،، سوچ کو صاف کر لیں تو منزل صاف نظر آ جاتی ہے . پازیٹو پروگرامنگ کے بعد ، غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ،،،،،،،،، اگر ہمارا کوئی اقدام غلط ہوگا تو ،،،،،،،،،،،،،،، ہمارا لاشعور ہماری دو فیصد سوچ پر اپنی بھاری آٹو میٹک والی طاقت استمال کرکے ، ہمارا رخ موڑ دے گا اور اپنی مرضی کے اقدامات کروا دے گا کہ جن کے روشن و خوشگوار اثرات ہمارا مقدر بن جائیں گے . انسانی زندگی پر ، انسانی دماغ کی آٹو پروگرامنگ کے اثرات اتنے تگڑے ہیں کے نہ ھم ، اپنی مرضی سے بیٹے ، بیٹیاں پیدا کر سکتے ہیں اور نہ زندگی و موت کا انتخاب کر سکتے ہیں ،،،، نہ قتل کرتے ہیں اور نہ قتل ہوتے ہیں ……الغرض ہمارے ہر عمل پر ، ہمارے ہی عمل کے خفیہ اثرات پڑتے ہیں .یہی وہ باتیں ہیں کے جن کو دیکھ کر ، انسان خود دھنگ رہ جاتا ہے اور غیر مرئی قوتوں کو خود پر متصور سمجھنے لگ جاتا ہے . جب اس عمل کی انتہا ہوتی ہے تو کانوں میں سیٹیاں سی بجنے لگتی ہیں اور ہر عمل ہی خودکار ہوجاتا ہے .پھر انسان اپنے ماضی کے ساتھ ساتھ ، مستقبل کے ہر واقع کو بھی ، روشن پردے پر ہوتا دیکھتا ہے ،،،،،،،،،،،،،،،، اس پر وہ حقایق آشکار ہوتے ہیں کے انسان ، اپنے آپ کو ہی ایک ” مہرہ ” سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ کوئی خارجی طاقت ، اس سے اپنی مرضی کے اقدامات کروا رہی ہے .
انسان اپنے جسم سے باہر نکل جاتا ہے اور جہاں چاہے جاسکتا ہے ،،، بس اپنے جسم کو ضرورت زندگی سمجھتا ہے ،،، اسی حد اختیار کو ہی ماہرین نفسیات نے ، اندر کا انسان یا ہمزاد کا نام دیا ہے ،،،،،،،،،،،، ایسا انسان اپنی مرضی کے واقعیات تخلیق کر سکتا ہے .وہ اپنی مرضی کا ماحول اور اپنی مرضی کے نتائج لے سکتا ہے ، فقیر سے شاہ اور شاہ سے پھر گدا بن سکتا ہے ،،،،،،،،، ایسے انسانوں کی قربت بھی الگ سی ہوتی ہے ، کچھ نہ کہیں پھر بھی انکے رنگ میں رنگے جاتے ہیں ،،، وہ سوچ پر حاوی ہوجاتے ہیں اور اگر کسی تخلیقی سوچ کے مالک ھوں تو ، ہمیں بھی تخلیق کار بنا دیتے ہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، عام آدمی کو بس اسی حد تک ہی رہنا چاہیے کے درست پروگرامنگ سے ، خود کو اپنی فمیلی کو بہترین زندگی کی طرف لے آئے ،
” علم و آگہی ”
* اگر آپ علم و آگہی پر مذید اچھی پوسٹس چاہتے ہیں تو کمنٹس میں اپنی پسند کا بتا دیں ۔ اگر ممکن ہوا تو اسکی وضاحت کر دی جائے گی ۔